Articles مضامین اور مقالہ جات


بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
تحریر: اشتیاق احمد سینئر ماہرِ مضمون طبعیات گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور وہاڑی فون03017576815
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکریم عما بعد ۔ صاحبِ صدر اور میرے ہم وطن ساتھیو۔جنگل میں ہرن اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے تو آہیں بھرتا ہوا  بے یار و مددگار ادھر ادھر بھاگتا پھرتا ہے۔ یہی حال آج کے مسلمان کا ہے۔نہ راستے کی پہچان اور نہ منزل کا پتا۔ بقولِ حکیم الامت " منزل ہے کہاں تیری اے لالہء صحرائی"صاحبِ صدر! بات کرتے ہوئے دِل دکھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ پچپن سے زائد آزاد مسلم ممالک اس دنیا کے نقشے پر موجود ہیں مگر تنکے کے برابر وزن نہیں۔ہاں تنکے کے برابر بھی نہیں۔ ملتان ڈویژن کے برابر رقبہ رکھنے والا اسرائیل ان سب پر حاوی۔ اتنے بڑے بڑے آزاد مسلم ممالک کے حکمرانو اور باسیو! چلو بھر پانی میں ڈوب مرو! ہاں ڈوب مرو۔ویرانوں میں پڑی ہوئی مردہ لاشو! تمہارے جثوں کی چمڑی فقط جوتے بنانے کے لائق رہ گئی ہے۔بھکاری کی زندگی جینے والو اور سب کو بھکاری بنانے کی تربیت دینے والو۔ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے ایک ایک پاؤ چینی دینے والو! ڈاکخانوں کے باہر لوگوں کی جھولی میں بھیک ڈال کر ان کو اپنی طرح مانگنے کی عادت کا رسیا بنانے والو سنو! گوشِ ہوش کے ساتھ سنو اور دل کے کانوں سے سنو! میرے مفکر اور میرے قائد تم سے کچھ کہہ رہے ہیں ۔ دوسروں کے ٹکڑوں پر پل کر خود اور اپنی نسلوں کو جوان کرنے والو! تم سے مخاطب ہیں میرے نبض شناس حکیم الامت۔چند سکوں اور ڈالروں کے عوض اپنے نظام، تعلیم کو بیچنے والے غدارو! تم سے کچھ کہہ رہے میرے قائد۔عالمی بینک کی امداد کے عوض نظریہء پاکستان، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنی قومی زبان کو بیچنے والو ! تمہیں پیچھے سے میرے قائد کی آواز سنائی نہیں دیتی۔انگریزوں کے جوتے چاٹنے والو باز آجاؤ اپنی نیچ اور غلیظ حرکتوں سے۔ گندی گلیوں میں دھنسے ہوئے متعفّن جثو تمہیں میرے حکیم الامّت سوئے حرم لے جانا چاہتے ہیں مگر تم سوئے واشنٹن جا رہے ہو۔تمہیں میرے شاعر محمدِ عربی ﷺ کے عطا کیے نظام کی ٹھنڈی چھاؤں میں بٹھانا چاہتے ہیں مگر تم خود دشمنوں کے بچھائے گئے جال میں پھنس کر ایک انجانی سی آگ میں جلنا چاہتے ہو اور پوری قوم کو اس میں جھونک رہے ہو ۔تمہیں نظامِ مصطفی کی وہ برکات اور فیوض عطا کرنا چاہتے ہیں جن سے امن و آشتی کے سب  دروازے کھل جائیں ۔ مگر تم نے غیروں کی جنگ اپنے گلی کوچوں میں چھیڑ رکھی ہے۔دہشت گردی کا بازار غیروں کی ایماء پر گرم کر رکھا ہے۔تمہیں میرے شاعرِ مشرق واشنگٹن اور لندن کی بجائے حرمِ پاک کے گرد جمع کرنا چاہتے ہیں۔تمہارا اصل محور و مرکز تو یہی ہے۔
اپنے  مرکز  سے  اگر دور  نکل جاؤ   گے
خاک ہو جاؤ گے افسانوں مین ڈھل جاؤ گے
اپنی  مٹی  پہ  ہی   چلنے  کا   سلیقہ  سیکھو
سنگِ  مر مر پہ چلو  گے تو  پھسل جاؤ گے۔
آؤ وہاں چلیں جہاں چلنے کا قرآن حکم دیتا ہے۔اس کے مطابق اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور فرقہ فرقہ نہ ہو جائیں،اپنے لیے اپنے راستے خود چنیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنی تہذیب و ثقافت اور قومی زبان کے اصولوں کے مطابق اپنے نصاب اور نظامِ تعلیم کو تشکیل دیں۔ اپنی لائبریریاں اپنی قومی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر دیں۔ہر چیز کو خود بنانے کا فیصلہ کریں۔ تحقیق و تخلیق کے بند دروازوں کو پھر سے وا کریں ۔اس دور کو پھر واپس لائیں جب یورپ کے باشندے اندلس اور قاہرہ کی جامعات کا رخ کرتے تھے۔ علم و ہنر میں ہم ان سے آگے تھے۔مگر آج کیا ہوگیا کہ ہم غیروں کی جوتیاں چاٹنے پر مجبور ہیں۔آئیں علم و ہنر کی یتامت کی کیفیت سے نکلیں۔ جھولی پھیلانے کی بجائے خود انحصاری کا راستہ اپنائیں۔قرآن و سنت کے ان زریں اصولوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نافذ کریں جو اوپر والے ہاتھ کو نیچے والے ہاتھ سے بہتر قرار دیتے ہیں۔تعلیم، صحت، معیشت الغرض زندگی کے ہر شعبے کی رہنمائی کے لیے سوئے حرم چل پڑیں جہاں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ
وہ ایک سجدہ  جسے  تو  گراں  سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات



بھارت میں اردو کا فروغ، پاکستان میں زوال
تحریر: اشتیاق احمد سینئر ماہرِ مضمون طبعیات گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور وہاڑی پنجاب فون 03017576815
1980کی دھائی میں دہلی، آگرہ ، لکھنؤ اور حیدرآباد کے شاہی محلوں میں پل کر جوان ہونے والی اردو ایسا لگتا تھا کہ جیسے یتیم ہو چلی ہے مگر بھارت کے اردو دانوں، شاعروں ، ادیبوں اور علماء کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ جنہوں نے اردو کے مُردہ قالب میں پھر سے جان ڈال دی۔ آج جب u-tube  پر 1990سے زمانہء حاضر تک کے ہونے والے مشاعروں کی روداد  اور ان میں اردو کی مدح سرائی اور پزیرائی کا آنکھوں دیکھا حال دیکھتے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ لاکھوں افراد کے جمِّ غفیرمیں جب  بھارت کے نامور شاعر وسیم بریلوی سٹیج پر تشریف لاتے ہیں تو اپنے کلام کے آغاز میں یہ شعر پڑھتے ہیں
تمہاری نفرتوں کو  پیار  کی خوشبو  بنا  دیتا
میرے بس میں اگر ہوتا تجھے اردو سکھا دیتا
ان کے بعد ایک اور شاعرہ شبینہ ادیب صاحبہ تشریف لاتی ہیں جن کا پورا کلام ہی اردو کی تعریف و ستائش میں ہوتا ہے ۔ ان کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔

نہ مٹی تھی  ، نہ  مٹی  ہے ، نہ مٹے کی اردو
چاہنے  والوں کے ہونٹوں پہ رہے گی اردو
یہ زباں وہ ہے جو محلوں میں رہی آن کے ساتھ
اور مزدور کے گھر میں بھی رہی شان کے ساتھ
عشق  کی راہ  میں اس نے کئی راہی بھی دیے
سرحدوں  کے  لیے جانباز سپاہی بھی   دیے
جذبہء  جنگ کو سینوں  میں جگایا  اِس نے
اپنے  بھارت کو غلامی سے چھڑایا  اِس  نے
ان کے بعد لتا حیا صاحبہ تشریف لاتی ہیں جن کی بھی پوری نظم عشقِ اردو کے نشےسے لبریز ہوتی ہے اور سامعین کو مسحور کر کے رکھ دیتی ہے۔ایک بند ملاحظہ فرمائیں
 صبح    کا   پہلا   پیام    اردو                                          ڈھلتی ہوئی سی جیسے شام اردو
  اتریں  جا ں تارے وہیں بام اترو                 بڑی  کم  سِن  گلفام   اردو
  جیسے نئے  سال  کا یہ دن  ہو  نیا                                     اور بیتے  سال کی ہو  آخری دعا
   نیا  سال  نئی  رام  رام  اردو                              تجھے  نئی  صدی  کا  سلام اردو
لتا حیا کے بعد  پھر ایک اور مشہور شاعر جناب ماجد دیوبندی تشریف لاتے ہیں اور آتے ہی  حُسنِ  اردو پر لکھی جانے والی ترنّم آفریں غزل چھڑتے ہیں جس کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں
سُخن میرا جو ہر سو بولتا ہے
میرے الفاظ میں تو بولتا ہے
ذرا میں زیر ہو جاتا ہے دُشمن
وہ اس لہجے میں اردو بولتا ہے
پھر ایک عاشقِ اردو جناب آنند موہن زُتشی دہلوی تشریف لاتے ہیں اور اردو سے محبت کا کچھ اس طرح سے ثبوت دیتے ہیں
میرؔو مرزاؔ، ذوقؔ و مومنؔ نے جسے بخشی جلا
وہ زباں نوّاب مرزا  داغؔ  کی رکھتا ہوں میں
آٹھ صدیوں تک جسے پالا عوامُ الناس نے
فخر ہے مجھ کو زبانِ خُسروی رکھتا ہوں میں
انہی کا ایک دوسرا بند ملاحظہ کیجئے
مجموعِ   گہر، فکر جواں ہے میری
کوثر میں دُھلی طرزِ بیاں ہے میری
دلّی جسے کہتے ہیں وطن ہے میرا
اردو جسے کہتے ہیں زباں ہے میری
یہ سلسلہ تو بہت لمبا ہے ۔ بہت  سےمزید فدائیانِ اردو کے عشق و مستی میں ڈوبے ہوئے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں۔طوالت کے پیشِ نظر  مزید اشعار پیش کرنے کی بجائے میں آپ کی توجہ مولانا آزاد بین الااقوامی اردو یونیورسٹی کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو بھارت کے شہر حیدرآباد میں 1994 میں قائم ہوئی ۔ اب یہ یونیورسٹی سائنس کے تمام مضامین جن میں حیاتیات ، کیمیا ، طبعیات ، شماریات ، ریاضی ، کمپیوٹر وغیرہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر بی ۔ ایس سی اردو میں کامیابی کے ساتھ کروا رہی ہے۔یہ کورسز اس نے حیدرآباد میں قائم ڈاکٹر ایمبیٹکر یونیورسٹی سے اردو میں ترجمہ کیے ہیں۔ فاصلاتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریگولر بنیادوں پر بھی بی ایس سی اردو میں ہو رہی ہے ۔  یہ یونیورسٹی جلد ہی ایم ایس سی کے کورسز اردو میں شروع کرنے والی ہے۔اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس برطانیہ اور جدّہ میں بھی قائم ہو رہا ہے۔  علاوہ ازیں بھارت میں ہزاروں اردو میڈیم سکول کھل رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ ہندؤں کی بھی ایک بڑی تعدد داخلہ لے رہی ہے۔اردو کے بارے میں یہ پیش رفت انٹرنیٹ پر پڑھی جا سکتی ہے۔ تقسیم سے پہلے بھی عثمانیہ یونیورسٹی میں سائنس کے تما م مضامین میں ، ایم بی بی ایس سمیت ایم ایس سی اردو میں ہوتی تھی اور وہاں سے ایم ایس سی کرنے والوں کا معیار آج کے رٹو طوطوں سے کہیں بلند تھا۔  بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی اردو کو اب ضرورت ہے ایسی پالیسیوں کی جو اس کی پرورش کر کے اسے علوم و فنون کا مخزن بنا دے اور بین الاقوامی زبان کے منصب پر فائز کر دے۔ بقولِ اقبال ؒ۔
شرابِ کہن  پھر  پلا ساقیا           وہی جام گردش میں لا ساقیا
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے شاعر اور ادیب خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور پاکستان میں یتیم ہوتی ہوئی اردو کی یتامت اور مسکنت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔پاکستان  کی اردو قومی زبان ہے مگر اسے جبراً انگریزی کے نیچے تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔ خادمِ اعلیٰ کے پنجاب کے تعلیمی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر انگلش میڈیم میں بدلا جارہا ہے۔ اساتذہ کو ٹریننگ کورسز کے ذریعے آپس میں اور طلباء کے ساتھ انگریزی بولنے کی ہدایات کی جا رہی ہیں اور مزید انگلش میڈیم سکولوں کا غیر ملکی امداد کے بل پر جال بچھایا جا رہا ہے۔ سکولوں میں اردو میں لکھے ہوئے بورڈوں کو مٹا کر انگلش میں بدلا جا رہا ہے۔ سکول کی اسمبلی تین دن اردو میں اور تین دن انگریزی میں کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں ۔
پاکستان کے شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں، صحافیوں اور اساتذہ پر یہ واجب ہو چکا ہے کہ وہ  بھارتی شعراء اور ادباء کی طرز پر تحریک چلائیں اور اردو کو انگریزی کی دست برد سے بچائیں۔جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ علوم و فنون سے تہی دست ہو جاتی ہے۔